حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کربلا میں نماینده آیت الله العظمی سیستانی حجت الاسلام والمسلمین شیخ عبد المہدی کربلائی نے نماز جمعہ کے دوسرا خطبہ کہا کہ عراق میں مختلف تعلیمی مراحل میں کامیابی کی شرح کا کم ہونا ایک تکلیف دہ رجحان اور لمحہ فکریہ ہے کہ جو جلد از جلد اس کے اسباب کی تشخیص کرنے اور اس کے حل کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا متقاضی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے بھائیو اور بہنو شاید آپ نے بھی میڈیا کے ذریعے وزارت تربیت کی طرف سے مڈل کے بورڈ کے امتحانات کا نتیجہ سنا ہو گا جس میں کامیابی کا تناسب 34.17% رہا۔ اسی طرح دوسرے تعلیمی مراحل میں بھی کامیابی کی شرح کافی حد تک گری ہے۔ یہ ایک ایسا تکلیف دہ رجحان ہے جو اس کے اسباب کی تشخیص اور اس کے مناسب حل کو وضع کرنے کا متفاضی ہے۔ اس موقع پر ہمیں ان بعض طلاب کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے اعلی نمبر لیے، خدا انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ لیکن عمومی طور پر مڈل کے بورڈ کے امتحان میں اور دیگر تعلیمی مراحل میں کامیابی کی شرح کا کم ہونا انتہائی تشویشناک ہے جو معیار تعلیم میں گراؤ کو ظاہر کرتا ہے۔
کربلا میں آیت الله العظمی سیستانی نے مزید کہا کہ اگر ہم غور کریں تو ہم پر واضح ہو جائے گا کہ یہ رجحان کیوں تشویشناک ہے، پہلی بات یہ ہے اس مرحلے کے طلاب ایسا مستقبلی یونٹ ہیں جنہوں نے یونیورسٹی میں جانا ہے، اسی طرح انہی طلاب نے کل کو تعلیمی اداروں اور دوسرے محکموں میں فرائض سرانجام دینے ہیں اور مستقبل میں ملک کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں۔ لہذا تعلیمی معیار کا یہ گراؤ مستقبل میں ذمہ داریوں کی ادائیگی میں گراؤ کا سبب بنے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس گراؤ کا طلاب، ان کے سرپرستوں، تدریسی سٹاف، حکومتی اداروں اور پورے ملک کے عمومی حالات پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ اس سے نفسیاتی طور پر مایوسی پھیلے گی، خود اعتمادی میں کمی واقع ہو گی، عراق میں تعلیمی، تدریسی اور تربیتی نظام سے اعتماد اٹھنے لگے گا، پوری دنیا میں بہت زیادہ ترقی ہو رہی ہے اور عراق کا معیار تعلیم ہی درست نہیں، جو کہ عراق کے مستقبل اور تہذیب و تمدن پر بھی اثر انداز ہو گا۔
معیار تعلیم کے گراؤ کے اسباب کا ذکر کرنے سے پہلے میرا سوال یہ ہے کہ کون اس صورت حال کا ذمہ دار ہے؟ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیمی و تربیتی عمل کی تشخیص کریں کہ جو ایک پورا نیٹ ورک ہے، جس کے تمام ارکان وعناصر ایک دوسرے سے مضبوطی سے منسلک ہیں، تعلیمی عمل ایسے نظام کا نتیجہ ہوتا ہے جس کے عناصر کی کامیابی پورے سسٹم اور عمل کی کامیابی شمار ہوتی ہے اور اس کے عناصر کی ناکامی سسٹم کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔
انهوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہم تین ارکان یا مقومات سے شروع کرتے ہیں جس میں پہلا نمبر افراد کا ہے (کہ جو طلاب، تدریسی عملہ، سکولوں کا اداری عملہ اور تربیتی اداروں کا عملہ ہے)۔ تعلیمی عمل کے نظام کا دوسرا رکن یا مقوم تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے ( کہ جو گھر، سکول، محکمہ تعلیم و تربیت، وزارت تعلیم و تربیت، تعلیمی و تربیتی امور کے قانونی و تنفیذی نگران ادارے ہیں)۔ جبکہ تعلیمی نظام کا تیسرا رکن یا مقوم تعلیمی کورس اور طریقہ تعلیم ہے۔ یہ تین اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو کر ایک نظام بنتے ہیں، یعنی ان عناصر میں سے کسی کی ناکامی کی وجہ سے پورا عمل و سسٹم ناکام ہوجاتا ہے۔
کربلا میں آیت الله العظمی سیستانی نے اس مشکل کی کچھ وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا ایک سبب تعلیمی عملے کی تدریسی صلاحیت میں ترقی و جدت کی کمی ہے، ہمارے ہاں تدریسی صلاحیت جمود کا شکار ہے۔ استاد کے پاس مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مختلف سطح کے طالب علموں کے دماغ میں علمی مواد کو پہنچانے کی صلاحیت ابھی تک ہمارے ہاں ترقی نہیں کر سکی ہے، بہت سے ممالک نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ کام کیا ہے اور اپنے تدریسی عملے کی صلاحیتوں آگے بڑھایا ہے جبکہ ہمارے ہاں سب کچھ جمود کا شکار ہے جسے اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ دوسری صورت میں تعلیمی و تربیتی عمل میں بھی ترقی مکن نہ ہو پائے گی۔ دوسرا سبب نصاب کا مسلسل تبدیلی ہونا ہے، بلکہ جو نصاب لایا جا رہا ہے اسے سمجھنا طالب علم کے لیے کافی مشکل ہو رہا ہے، ہم اس وقت اپنے تعلیمی نصاب کو ترقی دینے کے مرحلہ میں ہیں، لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ فلاں جدید نصاب فلاں کلاس کے طالب علموں کی ذہنی سطح کے لئے مناسب ہے بھی یا نہیں۔ ایک دوسری ضروری بات یہ ہے نصاب کی تبدیلی سے پہلے طالب علموں کو نئے نصاب کو قبول کرنے اور سمجھنے کے لیے ذہنی و علمی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر نیا نصاب اساتذہ کی صلاحیتوں کے مطابق نہیں ہو گا تو وہ اس نئے نصاب کو طالب علموں کے دماغ تک نہیں پہنچا پائیں گے۔ اس کے علاوہ دیگر اہم امور میں ایک تدریسی طریقہ کار اور وسائل کا استعمال بھی ہے، ہمارے ہاں ابھی تک علمی مواد کو رٹا لگوانے کا رواج ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ذہن سے کام لینا سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے حوزہ علمیہ میں بھی طالب علموں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی عقل اور فکری صلاحیت کو استعمال کر کے کسی بھی علمی مسئلہ کی تحلیل کر کے نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ آپ کی اکثریت جانتی ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تدریس و تعلیم کا طریقہ کار اور اس کے لیے استعمال ہونے والے وسائل تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ ہم ابھی تک پرانے طریقہ کار پہ کاربند ہیں۔
انکا مزید کہنا تها کہ ایک قابل توجہ مسئلہ بعض لوگوں کی جانب سے تعلیمی اور تدریسی عملے کا احترام نہ کرنا اور تعلیم کی حرمت کو پامال کرنا بھی ہے۔ میرے بھائیو اس مسئلے پر توجہ دینا ضروری ہے اور اس کا تعلق صرف تعلیمی اداروں سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہم سب سے ہے، ہم اپنے طالب علمی کے زمانہ میں اساتذہ کا بے حد احترام کرتے تھے قطع نظر اس بات کہ وہ امیر ہے یا غریب، اس کے پاس معاشرے میں کوئی مقام و مرتبہ ہے یا نہیں، ہم استاد کا اس لیے احترام کرتے تھے کیونکہ ہم علم کا احترام کرتے تھے، ہم علم کو مقدس مانتے تھے، ہم کسی بھی جانبی امر سے قطع نظر ہو کر استاد کا استاد ہونے کے ناطے احترام کیا کرتے تھے، لیکن آج کل بعض طالب علم یا معاشرے کے کچھ افراد استاد کو احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، اور کچھ لوگ استاد کا احترام تو کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ اس کا استاد ہونا نہیں بلکہ اس کی بلند معاشی حالت یا اس کا کوئی دوسرا منصب یا تعلق ہوتا ہے۔ میرے بھائیو ہمیں استاد کی قدر و قیمت سمجھنے کی ضرورت ہے، حالت یہ ہو چکی ہے کہ بغیر کسی معقول وجہ کے سکول کالج کے اندر استاد اہانت کا شکار ہو رہا ہے جس کی وجہ سے استاد کے نزدیک بھی اپنے شعبہ کی قیمت نہیں رہی اور وہ اپنے کام کو اب اہمیت نہیں دیتا اور نہ اس میں دلچسبی لیتا ہے۔ ہمیں استاد کو اہمیت اور احترام دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ استاد بھی اپنے کام کو دلچسبی اور سنجیدگی سے سرانجام دے۔
انهوں آخر میں کہاکہ ایک اہم مسئلہ سکولوں کی عمارتوں کی کمی اور سکولوں میں گنجائش سے زیادہ طالب علم بھی ہے۔ ہم پہلے بھی اس کے بارے میں بات کر چکے ہیں کہ ایسے کچھ اسکول بھی ہیں جہاں ایک دن میں تین شفٹس ہیں یعنی طالب علم صرف دو یا ڈھائی گھنٹے کے لیے سکول آتا ہے، کچھ سکولوں کی عمارتی صورت حال حفظان صحت اور حصول تعلیم کے مطلوبہ اصولوں اور وسائل سے خالی ہیں۔ لہذا متعلقہ اداروں کو اس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
اساتذہ میں ایک تشویشناک رجحان مال کے حصول کے لیے ٹویشن کا بھی ہے جس کی وجہ سے وہ سکول وغیرہ میں پڑھانے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس قسم کے اساتذہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیم ایک خدائی امانت ہے جسے طالب علموں تک پہنچانا ان پر واجب ہے۔